//

لاپتہ بلوچ طلبہ کیس : نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

وش ویب: لاپتہ بلوچ طلبہ کیس میں عدالت طلبی پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ لاپتہ طلبہ کی بازیابی کے کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے کوششیں کی گئیں، 11 مزید لاپتہ بلوچ طلبہ کو بازیاب کرایا گیا، 9 افراد سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں جبکہ 4 تاحال ٹریس نہیں ہوسکے اور دو افراد افغانستان میں ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جو قانونی عمل میں آگئے وہ اس کورٹ کے مینڈیٹ سے نکل گئے، ان کےخلاف کیس ہیں تو وہ متعلقہ عدالتیں دیکھیں گی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم نے 2 سال میں کئی سماعتیں کیں، بلوچ طلبا اٹھائے گئے، کچھ لوگ دہشتگرد ہیں، کچھ نے ٹی ٹی پی کو جوائن کیا، کچھ لوگ گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کو کام بھی کرنا ہے اور جوابدہ بھی ہونا ہے، یہ کیس چلا ہے تو اداروں کی کوششوں سے ہی لوگ گھروں کو پہنچے ہیں، ادارے قانون سے بالاتر یا مستثنیٰ نہیں ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اگر کسی کو گرفتار کریں تو اس سے متعلق پتہ ہونا چاہیے، لوگ لاپتہ ہوں تو پاکستان کی ریاست پر الزامات لگتے ہیں۔

عدالت میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہم سب آئین اور قانون کے تحت کام کررہے ہیں، میں عدالت کے بلانے پر حاضر ہوا ہوں، میرا بلوچستان سے تعلق ہے، ہم مسلح جدوجہد کا سامنا کررہے ہیں۔نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ وہ نئی ریاست تشکیل دینے کیلئے مسلح جدوجہد کررہے ہیں، ریاست اخلاقی طور پر خود کو بالادست سمجھتی ہے تو ان کی جوابدہی زیادہ ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ خودکش حملہ آور نیک نامی کا باعث بنتے ہیں، پیرا ملٹری فورسز اور کاؤنٹر ٹیرر ازم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں، میں صرف لاپتہ افراد سے متعلق وضاحت کر رہا ہوں، یہ لاپتہ افراد کا پوچھیں تو 5 ہزار نام دے دیتے ہیں۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ یہ خود بھی اس ایشو کو حل نہیں کرنا چاہتے، ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں، کوسٹل ہائی وے پر بس میں افراد کو زندہ جلا دیا گیا، کسی کو اُس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی یاد نہیں آئی۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ یہ بسوں سے اتار کر نام پوچھتے اور چوہدری یا گجر کو قتل کردیتے ہیں، یہ کہتے ہیں اسٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں، سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں، ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں.انہوں نے کہا کہ دہشتگردی سے 90 ہزار شہادتیں ہوئیں، 90 لوگوں کو سزا نہیں ہوئی، مجھ سے صحافی نے پوچھا آپ بلوچستان واپس کیسے جائیں گے؟ عدالت کا کہنا تھا کہ 24 ماہ میں ایک بار یہ بیان نہیں آیا کہ کوئی سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہے، ریاستی اداروں کی ناکامی ہے کہ وہ انہیں پراسیکیوٹ نہیں کرسکے، قانون میں سقم ہے اور ثبوت نہیں ہیں تو اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، قانون ایک ہی ہے، اس کے مطابق ہی چلنا ہے۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ نگراں حکومت کا ڈومین نہیں تھا مگر آنے والی حکومت سے درخواست ہوگی اسے دیکھے، ریاست کو آئے دن کے الزامات سے نکالنا چاہیے، ہم نے اور عام شہریوں نے ہتھیار نہیں اٹھائے کیونکہ تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کو ہتھیار اٹھانے والے شہریوں سے الگ طریقے سے ڈیل کرنا چاہیے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کوئی عدالت نان اسٹیٹ ایکٹرز کو تحفظ دینے کا نہیں کہہ رہی، بلاشبہ جنگ ہے، ہماری فوج اور ادارے لڑ رہے ہیں۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ انگلینڈ نے شام جانے والی برطانوی خاتون کی شہریت ختم کر کے واپس بھجوا دیا، نان اسٹیک ایکٹرز کی خلاف ورزیاں بھی ریکارڈ ہوتی ہیں، بلوچستان کے ایک سابق چیف جسٹس کو مغرب کی نماز کے وقت مسلح جتھوں نے شہید کیا تھا۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ان چیف جسٹس صاحب نے ایک انکوائری کی سربراہی کی تھی، آئین ریاست سے غیر مشروط وفاداری کا تقاضہ کرتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے نگراں وزیراعظم سے کہا کہ آپ نے بہت اچھی باتیں کیں۔عدالت نے کہا کہ بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں۔بعدازاں نگراں وزیراعظم کو عدالتی کمرے سے واپس جانے کی اجازت دے دی گئی اور ان کے جانے کے بعد بھی کیس کی سماعت جاری رہی۔سماعت کے دوران نگراں وزیراعظم اور جسٹس محسن کیانی کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ یو این کا بھی ایک طریقہ ہے، وہ پوچھتے ہیں کون لاپتہ ہوا، وہ پوچھتے ہیں آپ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں آپ لاپتہ ہوگئے ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ مجھے جبری لاپتہ ہوجانا ہے؟نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میں مثال دے رہا ہوں، میں انوار کا نام لے لیتا ہوں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ان عدالتوں نے بہت بڑے دہشتگردوں کو بھی سزائیں دی ہیں۔

متعلقہ خبریں

اپنا تبصرہ لکھیں

Translate »