وش ویب: امریکی صدر جو بائیڈن نے ماضی میں 100 سال تک چلنے والے انڈین بورڈنگ اسکولز پر حکومتی سطح پر باقاعدہ معافی مانگنے کا فیصلہ کرلیا۔
امریکا میں انڈین بورڈنگ اسکولز کا قیام سن 1869 میں عمل میں لایا گیا جو 1960 کی دہائی تک ( تقریباً100 سال) قائم رہے۔
امریکی انتظامیہ کی جانب سے مقامی افراد جنہیں ریڈ انڈینز بھی کہا جاتا ہے ان کے لیے انڈین بورڈنگ اسکولز کے نام سے الگ اسکول بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انہیں امریکی زمین پر آنے والے نئے لوگوں کے رہن سہن اور طرز زندگی کے مطابق ڈھالا جائے۔
تاریخی اعداد و شمار اور حالیہ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ 1860 کی دہائی سے 1960 کے 100 سالہ دور میں تقریباً 18 ہزار مقامی امریکی بچوں کو اس وقت کی حکومت نے اپنے گھروں سے زبردستی بورڈنگ اسکولوں میں منتقل کیا تاکہ انہیں اپنے آبائی رسم ورواج اور زبان سے دور کیا جائے۔
ایک رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ مقامی امریکیوں(ریڈ انڈینز) کے بچے بورڈنگ اسکولوں میں مشکل حالات میں رہتے تھے، انہیں جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور ان پر اپنی زبان میں بات کرنے پر بھی پابندی ہوتی تھی جب کہ اکثر بچے سالوں تک اپنے گھر والوں سے نہیں مل پاتے۔
رپورٹ کے مطابق بورڈنگ اسکولوں کے حوالے سے بعد ازاں ہونی والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ان اسکولوں میں تقریباً ایک ہزار بچوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور بہت سی قبریں بھی دریافت کی گئیں جب کہ اقوام متحدہ بھی اس عمل کو نسل کشی کا نام دے چکی ہے۔
صدر بائیڈن امریکا کے وہ پہلے صدر ہونگے جو امریکی ریاست کے اس عمل پر باقاعدہ معافی مانگیں گے۔