وش ویب: بینکوں کو اپنے بھاری منافع جات پر 197 ارب روپے اضافی انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا، اس ٹیکس سے بچنے کیلیے بینکس لابنگ کر رہے ہیں اور ایک بار پھر اضافی انکم ٹیکس سے استثناء حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
انویسٹمنٹ اینڈ ایڈوائزری فرم ٹولا ایسوسی ایٹس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں مقامی اور غیر ملکی بینکس ملا کر مجموعی طور پر 27 بینکس کام کر رہے ہیں، جن سے ایڈوانس ٹو ڈیپازٹ ریشو ( اے ڈی آر) کی بنیاد پر 197 ارب روپے کا اضافی انکم ٹیکس حاصل کیا جاسکتا ہے۔
یہ بینکس حکومت کو بھاری قرض دے رہے ہیں، لیکن انکم ٹیکس لاء کے مطابق اگر بینکوں کے پرائیویٹ سیکٹر کو دیے گئے قرض ایک مخصوص سطح سے کم ہونگے تو بینکوں کو 10 سے 15 فیصد تک اضافی انکم ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، رپورٹ کے مطابق 2024 میں بینکوں پر 612 ارب روپے کا اضافی انکم ٹیکس عائد ہوا تھا، لیکن بینکس حکومت سے استثناء حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
بینکوں کے منافع جات کی بنیاد پر ٹیکس سال 2025 میں بینکوں کو 197 ارب روپے کا اضافی انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ اضافی انکم ٹیکس 2022 میں متعارف کرایا گیا تھا، جس کا مقصد تھا کہ بینکس پرائیوٹ سیکٹر کو زیادہ قرض فراہم کریں، لیکن پھر حکومت نے اس کو 2023 میں معطل کردیا تھا، لیکن یہ جنوری 2024 میں دوبارہ بحال کردیا گیا ہے۔
بینکوں پر نارملی 39 فیصد ٹیکس عائد ہے، لیکن اگر بینکوں کا اے ڈی آر ریشو 40 فیصد تک رہتا ہے تو پھر حکومت سرکاری قرضوں پر حاصل کیے گئے منافع پر 55 فیصد ٹیکس وصول کرے گی، اگر اے ڈی آر ریشو 49 رہتا تو پھر 50 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا، اگر اے ڈی آر 50 فیصد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر حکومت عام شرح سے 39 فیصد ٹیکس ہی وصول کرے گی۔
واضح رہے کہ یہ ٹیکس سال کے آخری دن کے اعداد وشمار پر کیلکولیٹ کیا جاتا ہے، جس کو بینکس اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں، رپورٹ کے مطابق بینکس ایک بار پھر استثناء حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہیں، اور کئی بار اس حوالے سے اعلیٰ حکام کو اپروچ کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں۔