وش ویب: کوئٹہ میں بے روزگاری اور تنگدستی سے پریشان اپنے بچے فروخت کرنے والے مقامی فنکار نصیر احمد شہی کے بعد اب بلوچستان کے دیگر فنکار بھی اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے سول سیکرٹریٹ کوئٹہ کے چکر لگاتے دکھائی دے رہے ہیں ۔
مقامی فنکاروں کا کہنا ہے کہ ہم مختلف اوقات میں سرکاری سطح پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں مگر اب تھیٹر کلچر ختم ہو جانے کے باعث ہم بے روزگار ہیں اور نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری امداد کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے 30 ہزار روپے ماہانہ کا وظیفہ شروع کیا گیا تھا مگر حال ہی میں کلچر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس رقم پر کٹ لگا کر اسے 20 ہزار کردیا گیا ہے جبکہ اکثر مستحق فنکاروں کا نام اس وظیفے کی لسٹ سے نکال کر من پسند لوگوں کو نوازا جارہا ہے جس کے باعث ہم اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے میں بلکل ناکام ہوچکے ہیں اور مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے مسائل کی دادرسی کی غرض سے سول سیکرٹریٹ کے چکر لگاتے مقامی فنکاروں نے مزید کہا کہ اگر کلچر ڈیپارٹمنٹ کا یہی رویہ رہا تو ہمیں بھی مجبوراً اپنے بچے فروخت کرنے پڑیں گے لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ فنکاروں کے ماہانہ وظیفے پر کٹ نہ لگایا جائے اور کلچر ڈیپارٹمنٹ سے اقربا پروری کو ختم کرتے ہوئے مستحق فنکاروں کی امداد کی جائے۔