وش ویب: بلوچستان کمیشن آن دی سٹیٹس آف وومن کے مطابق بلوچستان میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان پایا جاتا ہے جس سے زنگی میں اضافے کے ساتھ بچوں کی اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں کا رجحان زیادہ ہے۔ ایک محتاط تجزیے کے مطابق 15 سال سے کم عمر میں شادیوں کی شرح 5-12 فیصد اور 18 سال سے کم عمر میں شادی کی شرح 45 فیصد ہے۔ اس پر پیکٹس کا زیادہ پھیلاو ¿ کم اقتصادی شراکت داری اور تعلیمی مواقع سے محرومی کو جنم دیتا ہے۔ اسکے علاوہ لیبر مارکیٹوں تک محدود رسائی اور بڑھتی ہوئی کمزوریاں صنفی بنیاد پر تشدد کا بھی باعث بنتی ہیں ۔ کم عمری میں شادی کی روک تھام کا بل قانون سازی کے ذریعے اس طرز عمل سے نمٹنے کیلئے ایک کثیر الجتی نقطہ نظر پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
شادی کی کم از کم عمر 18 سال تک محدود کرنا اور اس سے کم عمر میں شادی کی حمایت کرنے والے روایتی اصولوں کی ممانعت کرنا لازمی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن ( CEDAW) کے حوالے سے بین الاقوامی وعدوں پر قانونی طور پر قانون سازی کرنے کا پابند ہے اور پاکستان کنونشن آف چائلڈ رائٹس (CRC) پر بھی دستخور کرنے والا ہے ۔ سعودی عرب سمیت بہت سے اس سمیت بہت سے اسلامی ممالک نے کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے اقدامات کرتے ہوئے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی ہے ۔
اسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان اور وفاقی شرعی عدالت نے 18 سال کی حد کی حمایت کی ہے۔ حال ہی میں پنجاب ہائی کورٹ نے شادی کے وقت لڑکیوں اور لڑکوں کی عمروں کے درمیان فرق کو امتیازی اور آئینی شق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان پر بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کرتے ساتھ ہی ایک زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نا صرف اس حوالے سے قانون سازی کو یقینی بنانے بلکہ اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے۔