//

فلسطین میں اسرائیل کی جنگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، اسحاق ڈار

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

وش ویب: وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کی جنگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔

جدہ میں اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس ہوا، جس کے ایجنڈے میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور ایران کی خود مختاری کے خلاف اسرائیل کی جارحیت شامل تھی۔اجلاس میں پاکستان، ایران، اردن، بنگلہ دیش، فلسطین، ماریطانیہ، مراکش،کیمرون اور یمن سمیت دیگر اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ شریک تھے۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اجلاس کے انعقاد پر سعودی قیادت کے شکر گزار ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی، غزہ میں گزشتہ 9 ماہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہیں .

اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اسرائیل نے غزہ میں اسکولوں، اسپتالوں، امدادی قافلوں اور پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنایا، اسرائیل نے انسانی بنیادوں پر جانے والی امداد بھی روک رکھی ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں، امت مسلمہ کو او آئی سی سے بہت ساری توقعات ہیں، دنیا کو اس وقت جنگ نہیں امن کی ضرورت ہے، اسرائیلی مظالم روکنے کےلیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ عالمی عدالت انصاف نے بھی اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیا، غزہ تک امداد کی فراہمی کےلیے تمام راستے کھولے جائیں۔ہمیں اسرائیل کو روکنے کے لیے سیاسی عزم، مکمل اتحاد اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے، ایران اور فلسطین کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو وہ سب کرنا چاہیے جو وہ کر سکتی ہے۔

نائب وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ خطے میں مزید تناؤ اور تشدد کو روکنے، مقبوضہ خطے میں پائیدار اور غیرمشروط سیز فائر کے لیے ہمیں یہ واضح کرنا ہو گا کہ اگر اسرائیلی قیادت سیز فائر کے قیام کے قانونی مطالبے پر اپنی من مانی جاری رکھے گی تو اس کے جواب میں او آئی سی اراکین تیل اور تجارت پر پابندی سمیت دیگر مجموعی اقدامات کریں گے۔عالمی فریم ورک بنا کر غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی پر اسرائیل کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور ان جرائم ملوث افراد کے احتساب کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

اپنا تبصرہ لکھیں

Translate »