وش ویب: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر بحث کی گئی۔اسمبلی کے دیگر اراکین نے اس سے متعلق اظہار خیال کیا۔
جمیعت علماء اسلام کے رکن زابد ریکی نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال واضح ہے۔ اغوا برائے تاوان اور قتل گری کابازار گرم ہے۔ خاران میں ایک زمیندار بختیار مینگل کو دوہفتے سے اغواء کیاگیا مگر اسے بازیاب نہیں کرایا گیا ہے۔ گر امن وامان کی حالت یہی رہی توبلوچستان ہاتھ سے نکل جائے گا۔ صوبائی وزیر آبپاشی صادق عمرانی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ امن و امان کے حالات کو مختلف انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ آئی جی پولیس ہمارے رسم و رواج سے واقف ہیں۔ بلوچستان میں آنے والے دنوں میں مزید حالات خراب کرنےکی کوشش کی جارہی ہے۔ تمام ایشوز پر مل بیٹھ کر حل نکلا جائے۔
اجلاس میں ظفرآغا کا امن و امان کے حوالے سے کہنا تھا کہ امن وامان کےحالات اچھے نہیں ہیں۔ منشیات فروشوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالاجاتا ہے۔ لیویز کے اہلکار ملزمان کے خلاف کاروائی نہیں کرتے ہیں۔ایوان میں امن و امان کے متعلق صوبائی وزیر علی مدد جتک نے کہا کہ جب بھی بلوچستان کو ترقی دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو حالات خراب کردیئے جاتے ہیں۔ ملک دشمن عناصر بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں دیکھناچاہتے ہیں۔ موجودہ حکومت امن بحال کرنا چاہتی ہے۔
جس پر رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ امن وامان سب کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ جہاں بدامنی ہوتی ہے وہاں قومیں تباہ ہوتی ہیں۔ :بلوچستان جس آگ میں جل رہاہے اس میں کسی ادارے کو ذمہ دار قرارنہیں دے سکتے ہیں.نورمحمد ڈومڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن وامان کو بحال کرنے کےلئے سرجوڑ کرسوچنے کی ضرورت ہے۔ رنائی میں جوگاڑیاں جلائی گئیں ہیں انکے مالکان کو معاوضہ دیا جائے۔جس پر خیرجان بلوچ نے کہا کہ سب کی ذمہ داری ہے کہ حالات کو سنجیدگی سے لیں۔ اپوزیشن اس بات پر متفق ہے کہ وہ حکومت کے امن وامان کے حوالے سے اقدام کی حمایت کرے گی۔