//

لاپتا افراد کیس:سیکریٹری دفاع ، داخلہ، چیف کمشنر اور پولیس افسران پر کیے جانے والے جرمانوں کے خلاف اپیلیں خارج

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

وش ویب:اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی کیس میں شہریوں کی عدم بازیابی سینگل بینچ کی جانب سے سیکریٹری دفاع ، داخلہ، چیف کمشنر اور پولیس افسران پر کیے جانے والے جرمانوں کے خلاف اپیلیں خارج کر دیں۔ لاپتا آئی ٹی ایکسپرٹ ساجد محمود ، عمر عبد اللہ ، مدثر نارو و دیگر کی بازیابی کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، درخواست گزار مائرہ ساجد کی جانب سے بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے کیس کی پیروی کی۔سماعت کے آگاز پر جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ جی ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب کوئی خوشخبری ہے؟ لاپتا افراد آگئے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق تاحال پیش رفت نہیں ہوئی۔لاپتا شہریوں کی عدم بازیابی پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہم ہوگئے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کئی کئی سال گزر گئے ہیں ، کہاں ہیں لاپتا افراد ؟ ہر بار آپ آکر کہہ جاتے ہیں کہ پروگریس ہو رہی ہے، کتنا وقت دیں آپ کو؟ آپ ہر بار وقت مانگ لیتے ہیں، پہلے کئی بار اٹارنی جنرل پیش ہو چکے، خالد جاوید خان بھی پیش ہو چکے، ہم کیا کریں پھر جو جرمانہ عائد ہوا اسے ڈبل کردیتے ہیں؟ کیا کریں پھر وزیر اعظم کو بلا لیں؟ان کا کہنا تھا کہ کئی سالوں سے یہ کیسز زیر سماعت ہیں، نہ لاپتا افراد بازیاب ہوئے نہ کوئی پیش رفت ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کوئی پروگریس تو بتائیں ناں ہوا کیا ہے؟ آپ کیا کر رہے ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل نے بتایا کہ حکومت نے کمیٹی بنائی ہے اور وہ حتمی مرحلے میں ہے، کچھ وقت دے دیں، جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ سیدھا سیدھا بتائیں بندے کدھر ہیں؟ منور اقبال دوگل نے کہا کہ تمام کوششیں کی جا رہی ہیں، کسی بندے کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ کس ادارے کے پاس ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ ہمارے لیے اپیلوں پر فیصلہ کرنا بہت آسان ہے جو جرمانے ہو چکے وہ ڈبل کر دیں گے، ہر سیکریٹری اور آئی جی اپنی تنخواہ سے جرمانہ دیتا جائے گا یہ بڑا آسان طریقہ ہے، ہم تو 7 سال سے یہ کیس لے کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کچھ ہو جائے، میرا خیال ہے اب یہی کرنا پڑے گا، آپ ہر تاریخ پر مختصر وقت مانگ لیتے ہیں۔انہوں نے مزید دریافت کیا کہ کیا معجزہ ہونے لگا ہے کیا حتمی مرحلے میں ہیں؟ یہ صرف لالی پاپ ہے جو آپ ہمیں دے رہے ہیں، اس طرح کے مقدمات میں اٹارنی جنرل خود پیش کیوں نہیں ہوتے؟ کیا اس سے زیادہ اہم بھی کوئی معاملہ ہو سکتا ہے؟
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل مصروف ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا مصروفیت ہے کسی نے انہیں بھی قید کر دیا ہے؟ ہم بھی وزیر اعظم یا کسی اور کو بلا لیتے ہیں بتائیں اور کیا کریں؟ فیڈریشن نے شاید حلف اٹھایا ہوا ہے کہ عدالتوں کی معاونت نہیں کرنی، اب آپ عدالتوں کو اس حد تک لے آئے ہیں کہ اب آپ کی کسی بات پر یقین نہیں کرنا، ہم سے یہی بات کہہ کر اسٹے لیا گیا تھا کہ کوششیں ہو رہی ہیں، اگر یہ کہہ دیں کہ بندے لے آئیں گے تو وقت دے دیتے ہیں، اب تو بہت وقت گزر چکا ہے، آپ کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ہےبعد ازاں عدالت نے سنگل بینچ کی جانب سے افسران پر کیے گئے جرمانوں کے فیصلے کے خلاف وفاق کی تمام انٹرا کورٹ اپیلیں خارج کردیں۔

متعلقہ خبریں

اپنا تبصرہ لکھیں

Translate »