وشویب: کویٹہ پریس کلب میں اراکین صوبائی اسمبلی اور رکن قومی اسمبلی عثمان بادینی کی لانگ مارچ ماشکیل کے شرکاء کے ہمراہ پریس کانفرنس، پریس کانفرنس میں حاجی عثمان بادینی کا کہنا تھا کہ 10 دن کے لانگ مارچ کے بعد شرکاء کل کوئٹہ پہنچے، ماشکیل کو زمینی دو راستے ملے ہیں جو سیلابی ریلوں کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں، راستے بند ہونے کی وجہ سے کئی بار ہمارے مریض راستے میں ہی دم توڑ گئے،انکا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کاروبار کر سکیں، لیکن زیرو پوائنٹ کو بند کردیا گیا ہے، جب جی چاہتا ہے بارڈر کھول دیتے ہیں اور جب دل چاہتا ہے بند کر دیتے ہیں ،
جبکہ پریس کانفرنس میں موجود زابد ریکی نے کہا کہ 24 اپریل کو ماشکیل میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی پر سنوائی نہیں ہوئی ، مظاہرین 700 کلومیٹر سفر طے کر کے کوئٹہ پہنچے ہیں، ہم اپنے جائز مطالبات کے حق میں اپنا دھرنا جاری رکھیں گے،، تین چار سال سے بارڈر مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے، انہوں نے مزید سوال کرتے ہوئے کہا کہ گورنمنٹ ہمیں اپوزیشن کی نظروں سے دیکھ رہی ہے کیا، اشیاء خوردونوش کی راہداری کو بند کرنے کا کیا مقصد ہے؟ ، رکن صوبائی اسمبلی زابد ریکی کا کہنا تھا کہ ہم اسمبلی میں بھی آواز اٹھائیں گے، احتتاج کو 24 گھنٹے مکمل ہوچکے ہیں پر کسی منسٹر نے کچھ نہیں پوچھا، جبکہ ڈپٹی کمشنر بھی باتیں کر کے چلا گئے
شرکاء دھرنا کا کہنا تھا اگر مطالبات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ریڈ زون کے سامنے بھوک ہڑتال پر بیٹھ جائیں گے جس پر ثناء بلوچ نے بتایا زیرو پوائنٹ کو بند کرنے کی وجہ کلیکٹر کو بھی نہیں پتا،، بلوچستان میں رہنے والے شہریوں کہ ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے،انہوں نے کہا ہم سوال کرتے ہیں بلوچستان میں کس کی حکمرانی ہے، واشک میں کالج تک نہیں ہے، انکو لگتا ہے بارڈر کو بند کرنے سے ان کے قرضے اتر جائیں گے ، بارڈر سیکیورٹی کا کام ہماری ماؤں بہنوں کہ دپٹے اتار کر راشن دیکھنا نہیں ہے،