وش ویب : آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ”پاکستان لٹریچر فیسٹیول“ (کوئٹہ چیپٹر ) کے دوسرے روز پہلے سیشن بلوچستان میں ہائر ایجوکیشن ہم کہاں کھڑے ہیں کے موضوع پر سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیر تعلیم بلوچستان راحیلہ درانی، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، مختار احمد، وائس چانسلر بیوٹمز یونیورسٹی ڈاکٹر خالد حفیظ، ظہور احمدبازئی، غازی صلاح الدین، ڈاکٹر ضیاءالحسن اور صادقہ صلاح الدین نے موضوع سے متعلق گفتگو کی جبکہ سیشن میں نظامت کے فرائض سید جعفر احمد نے انجام دیے.
بلوچستان کی وزیر تعلیم راحیلہ درانی نے کہاکہ اسکولوں سے متعلق بریفنگ نے بہت مایوس کیا ہے، ہم نے اسکول تو بنائے مگر ان کو قائم رکھنے کے لیے کچھ نہیں کیا، ہم اسکول پر اسکول کھولتے چلے گئے، ہمارے پاس سب سے بڑا ڈیپارٹمنٹ ایجوکیشن میں اسکول کا ہے ، طلبہ کی تعداد 11لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، 3ملین بچے پاکستان سے باہر ہیں، ہم نے کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی، جب عبد المالک بلوچ وزیراعلیٰ تھے ان کے دور میں 24 فیصد بجٹ تعلیم کے لیے رکھا گیا جو بہت بڑی بات تھی اس کے بعد بلوچستان میں تعلیم کو پھیلانے کے بجٹ بہت کم رکھا گیا، مجھے افسوس ہے کہ ہمارے اساتذہ بچوں کو صحیح تعلیم دینے میں ناکام ہوچکے ہیں، 75سال گزرنے کے بعد بھی ہمارا معیار تعلیم بہتر نہ ہوسکا۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے یہ سمجھنا ہے کہ تعلیم ایک اہم فریضہ ہے، چیئریٹی کلچر بہت عام ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل اپنی قابلیت سے ترقی کرنے کے بجائے تعلیمی میدان میں پیچھے ہوتے جارہے ہیں، بیوٹمز یونیورسٹی کے وائس چانسلر خالد حفیظ نے کہاکہ جو قومیں تعلیم پر توجہ دیتی ہےں وہ ترقی کرجاتی ہیں ،تعلیمی اداروں میں غیرتعلیم یافتہ لوگوں کو بھرتی کیاگیا جس سے تعلیم کا معیار خراب ہوا، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہاکہ اعلیٰ تعلیمی نظام چلانے کے لیے پہلے مسائل کو سمجھنا ہوگا، پاکستان کے تعلیمی نظام میں جدید دور کے حساب سے تبدیلی لانا چاہیے، انہوں نے کہاکہ ہمیں اگر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ڈالر سے زیادہ معلومات پر توجہ دینی ہوگی۔
ڈاکٹر ضیا الحسن نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، آج کل یونیورسٹیز میں ریسرچ پر نہیں ڈگری حاصل کرنے پر توجہ دی جاتی ہے ، ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ تعلیمی سیکٹرز میں اپنا مثبت کردار ادا کرے، غازی صلاح الدین نے کہاکہ مجھے دنیا کے کیمپس دیکھنے کا بہت شوق ہے حالانکہ میں نے کبھی کیمپس میں تعلیم حاصل نہیں کی، کیمپس نوجوانی کا جشن ہوتا ہے، جشن سے مراد پارٹی یا جلسہ کرنا بالکل نہیں ، بڑے کیمپس میں طالب علموں پر تعلیم کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے،.
انہوں نے کہاکہ کیمپس وہ جگہ ہے جہاں مختلف لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ، امریکن یونیورسٹیز کیمپس میں نئے خیالات اور نئی ایجادات کے بیج بوئے جاتے ہیں، صادقہ صلاح الدین نے کہاکہ تعلیم کا مسئلہ صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ ہر صوبے میں ہے، ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے ڈونر تلاش کرتے ہیں اگر ہمیں ملک کا مستقبل روشن چاہیے تو تعلیمی نظام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔